حضرت موسی علیہ السلام
١.حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش اور شادی
ہوئے, تو ان کی ماں اس بات پرڈر گئ کہ فرعون ان کے بیٹے
کو قتل کروادے گا -لیکن اللہ نے آپ کی ماں کو بتایا کہ! آپ
اپنے بیٹے کو دریا میں رکھ آئیں- اور ہم موسیٰ کو بچا لیں
گے- حضرت موسی علیہ السلام کی ماں نے آپ کو ایک
ٹوکری میں رکھا اور دریا میں رکھ آئیں وہ ٹوکری بہتی ہوئی
فرعون کے دربار کی طرف گئی تو فرعون کے سپاہیوں نے
اس کو اٹھا لیا اور محل میں لے گئے- وہاں پر اس بچے کو
فرعون کی بیوی نے لے لیا-اس نے کہا کے بچہ میں پالوں
گی- پھر بچے کو دودھ پلانے کے لئے ایک عورت کو بلایا
گیا- وہ حضرت موسی کی اپنی ماں تھی-لیکن یہ بات کسی کو معلوم نہیں تھی –
انہوں نے بچے کو دودھ پلایا- اور ان کی دیکھ بھال میں لگ
گئیں- اور اس طرح حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے
دربار میں ہی رہنے لگے- کچھ عرصہ کے بعد جب حضرت
موسی علیہ السلام ذرا بڑے ہو گئے- تو فرعون کو معلوم ہوا
کہ یہ بچہ بنی اسرائیل کا ہے-
حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کے پاس واپس آ گئے- موسی علیہ السلام بکریاں چراتے تھے- ایک دن ان کے ایک ساتھی سے فرعون کے
ایک سپاہی کا جھگڑا ہو گیا- موسی علیہ السلام مدد کے لئے
گئے- تو ان کے ہاتھ سے وہ سپاہی قتل ہو گیا- حضرت موسی
علیہ السلام گھبرا گئے- اور وہاں سے بھاگ کرمدین شہر چلےگئے-
وہاں ان کو دو لڑکیاں ملی جو ایک کنویں پر پانی
بھرنے کے لیے کھڑی تھیں -لیکن دوسرے لوگ ان کی باری
نہیں آنے دے رہےتھے- حضرت موسی علیہ السلام نے ان کی
مدد کی اور ان کو پانی بھر دیا- لڑکیوں نے ان سے کہا کہ
آپ ہمارے گھر ہمارے والد صاحب سے ملنےآئیں-
حضرت موسی علیہ السلام ان کے گھر پر پہنچے، تو وہاں
جن سے ملے- وہ ایک نبی حضرت شیعب الہی سلام تھے -انہوں نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اچھائی اور حیا دیکھی- تو کہا
کہ! اگر آپ میرے گھر آٹھ سال تک رہیں گے، اورہماری دیکھ
بھال کریں گے -تو میں اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کردوں گا-
حضرت موسی علیہ السلام راضی ہوگئے -اور اس طرح
حضرت موسی علیہ السلام تقریبا دس سال وہیں پر رہے اور
ان کی شادی ہوگئی-
٢.حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون
دس سالوں کے بعد حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے سوچا کہ اب مجھے واپس اپنے شہر جانا چاہیے-
وہ اپنی بیوی کو لے کر واپس چل پڑے – راستےمیں ایک جگہ پر
جب رات کے وقت وہ رکے ،تو انہوں نے ایک پہاڑ طور
کے پاس کچھ روشنی دیکھی- انہوں نے اپنی بیوی سے کہا،
کہ! آپ یہاں ٹھہرو میں نے روشنی دیکھی ہے- میں آپ کے
لیے وہاں سے آگ لے کر آتا ہوں- جب حضرت موسی علیہ
السلام اس پہاڑ کے پاس پہنچے تو ان کو ایک آوازآئی – اے
موسی! حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے -پھر آواز آئی اےموسیٰ ڈرو
نہیں میں تمہارا رب ہوں- اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام
سےپوچھا ، یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ حضرت موسی علیہ
السلام نے کہا یہ میرا عصا ہے- اس سے میں بکریاں
چراتا ہوں اور اپنا راستہ تلاش کرتا ہوں- اللہ نے آپ سے کہا
اس کو زمین پر پھینکیں- جب انہوں نے عصا زمین پر
پھینکا -تووہ سانپ بن گیا- حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ نے حکم دیا
کہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈالیں- جب انہوں نے ہاتھ ڈالااور ڈال کر
باہر نکالا تو وہ چمکنے لگا- حضرت موسی علیہ السلام کو
اللہ نے کہا، کہ! آپ میرے نبی ہیں- آپ فرعون کے پاس جائیں اور
اس کو مجھ سے ڈرائیں اور کہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور بنی
اسرائیل کو چھوڑ دو- حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گھر
والوں کو لے کر آگئے-
حضرت علیہ السلام نےاللہ سے دعا کی کہ! اے اللہ! زبان میں لکنت ہے-
یہ صاف نہیں ہے- آپ میرے بھائی
کو بھی میرے ساتھ دعوت کے کام میں لگا دیں- تاکہ وہ میری
مدد کرے- اللہ تعالی نے حضرت ہارون علیہ السلام جو
حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی تھے- ان کو بھی آپ کے ساتھ
بھیجا-
پھر انہوں نے
فرعون کو اللہ کی دعوت دی- انہوں نے فرعون کو کہا کہ!
اللہ سے ڈرو ،اس کی عبادت کرو اور اور بنی اسرائیل پر ظلم
کرنا چھوڑ دو- اورانہیں میرے ساتھ بھیج دو-لیکن فرعون نا مانا-
موسی علیہ السلام نے فرعون کوپھر دعوت دی- تو فرعون
نے پوچھا- آپ ہمیں کوئی نشانی دکھائیں- موسی علیہ السلام نے
اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈالا تو وہ چمکنے لگا- اپنا عصا پھینکا
تو وہ بھی سانپ بن گیا-فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا
کہ یہ تو جادو ہے- فرعون منے اعلان کروایاکہ ساری دنیا کے
جادوگر آئیں- اور حضرت موسی علیہ سلام سے مقابلہ کریں-
لہٰذہ سب لوگ اور فرعون اپنے وقت اور جگہ کے مطابق
جمع ہوگئے-سری دنیا کے بہت بڑے بڑے جادوگر وہاں آئے-
جادوگروں نےفرعون سے پوچھا کہ اگر ہم نے حضرت موسی علیہ السلام
کو ہرا دیا تو ہمیں کیا انعام ملے گا فرعون نے کہا کہ
جو حضرت موسی علیہ السلام کو ہرا دے گا-
میں اس کو بہت
سارے انعام بھی دوں گا-ا اور اپنے دربار میں اپنے ساتھ بھی
بٹھاؤں گا-
مقابلہ شروع ہوا- جادوگروں نے حضرت موسی علیہ
السلام سے پوچھا ،کہ کون اپنا جادو پہلے دکھائے گا- حضرت
موسی علیہ السلام نے کہا، آپ شروع کرو- توجادوگروں نے بہت
ساری رسیاں پھینکیں جو سانپ بن کے دوڑنے لگیں –
اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ
السلام کو پکارا اور کہا اے موسیٰ! ڈرو نہیں- اور اپنا عصا
زمین پر پھینکو- حضرت موسی علیہ السلام نےاپنا عصا
زمیں پر پھینکا وہ بڑا سا اژدہا بن کر سارے سانپوں کو نگل گیا-
تمام جادوگر سجدے میں گر گئے-اور کہنے لگے کہ ہم
موسی علیہ السلام کے رب پر ایمان لے آئے- کیونکہ وہ پہچان
گئے تھے- کہ یہ کوئی جادو نہیں ہے- بلکہ یہ کوئی اور طاقت ہے- فرعون کو بہت غصہ
آیا-اس نے جادوگروں سے کہا کہ میں تم لوگوں کو سزا دوں
گا-اور تمہارے ہاتھ ایک طرف سے کاٹ کر دوسری طرف
سے پاؤں کاٹ دونگا-انہوں نے کہا کہ آپ جو مرضی سزا دیں
ہم سچ کی روشنی کو پا چکے ہیں- اس طرح فرعون کو اپنی
شکست بہت بری لگی- وہ حضرت موسی علیہ السلام اور
ان کے ساتھیوں کا بہت دشمن ہو گیا- حضرت موسی علیہ
السلام نے بہت کوشش کی- فرعون اللہ کو رب مان کر بنی
اسرائیل کو آزاد کر دے لیکن فرعون نہ مانا آخر ایک دن موسیٰ
علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا
اور رات کو بستی چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا-حضرت موسی علیہ السلام رات کو
جب سب ساتھیوں کو لے کر بستی چھوڑ کر نکل آئے -تو فرعون
کو معلوم ہو گیا کہ بنی اسرائیل بھاگ رہے ہیں- اس نے اپنے
سپاہیوں کو لے کر پیچھا کرنا شروع کردیا- حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے
ساتھی ایک دریا کے کنارے پہنچ گئ- ان کے ساتھیوں نے
کہا کہ اب تو ہم پکڑے جائیں گے- فرعون اور اس کے سپاہی
ہمیں مار دیں گے- لیکن حضرت موسی علیہ السلام نے کہا، کہ
ڈ رونہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے- موسی علیہ السلام نے اللہ کے
حکم سے اپنا عصا پانی پر مارا تو پانی پھٹ گیا- اور بارہ
راستے بن گئے –حضرت موسی علیہ السلام کے سارے ساتھی آسانی سی
دریا پار کرگیے- پیچھے فرعون جب اس جگہ پہنچا- تو اس نے
بھی اپنے سپاہیوں کو لے کر اسی راستے پر چلنا شروع کر
دیا- لیکن جب تمام سپاہی اور فرعون دریا کے درمیان میں پہنچے تو
پانی ساتھ مل گیا – اس طرح فرعون اور اس کا سارا لشکر پانی
میں ڈوب کر غرق ہو گیا-دوسری طرف حضرت موسی علیہ
السلام اور بنی اسرائیل دریا کے دوسری طرف پہنچ گتے –
٣.حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل دریا کی دوسری طرف صحرا ہی صحرا تھا –حضرت موسی علیہ السلام کی تمام قوم تھک چکی تھی- انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے پوچھا–
کہ اب ہم کیا کریں گے-حضرت موسی علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب ہم مصر واپس جا کر اپنا ملک آزاد کروائیں گے-لیکن وہ نہ مانے انہوں کہا کہ ہم میں لڑ نے کی طاقت نہیں ہے- پھر چالیس سال تک وہ لوگ اسی صحرا میں بھٹکتے – اور وہی پر اپنی بستی بسا لی- ٤.بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتیں وہ لوگ سینا صحرا کے کنارے ہی رهنے لگے-وہاں پھر انہوں نے طرح طرح کی فرمائشیں کرنی شروع کر دیں –پہلے کہا کہ ہم کہاں سے کھائیں گے – انہوں نے حضرت موسی علیہ
السلام سے کہا کہ آپ اپنے رب سے دعا کریں- کہ ہمارے
لیے آسمان سے کھانانازل فرمائیں . اس پر حضرت موسی علیہ
السلام نے دعا کی تو ان پر اللہ تعالی نے ان پر اپنی نعمت بیجھی.اور آسمان سے من وسلویٰ بھیجنا شروع کر دیا- جو کہ چالیس سال تک آتا رہا – پھر
ایک د ن ان کی قوم نے کہا- کہ اے موسیٰ ہم ایک جیسا کھانا کھا کھا کر
تھک چکے ہیں- ہمیں کوئی اور کھانا چاہیے- اس پر اللہ
ناراض ہو گیا اور ان کا سارا کھانا آ نا بند ہو گیا – ان پر الله کی دوسری نعمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے
ایک بادل کو ان کےاوپر بھیج
رکھا تھا – جو ہر وقت ان کے اوپرسایہ رکھتا تھا- اور پھر اللہ تعالی نے ان کے لئے ایک پتھر سے
بھی پانی نکالا تھا- جس کے 12 چشمے تھے جن سے
ان کے بارہ قبیلے پانی پیتے تھے- لیکن یہ قوم پھر بھی اللہ کا
شکر ادا نہ کر تی -اور ہر وقت شکوے کرتی رہتی-اسی لیے ایک ایک کر کے اللّہ نے ان سے تمام نعمتیں چھین لیں – ٥.حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر
ایک دن حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کو کہا کہ
ایے میرے بھائی میں تیس دن کے لیے کوہ طور پر جا رہا ہوں – میرے
پیچھے قوم کا خیال رکھنا- اور ان کو سیدھے راستے پر
جمائے رکھنا- حضرت موسی علیہ السلام پہاڑ پر چلے گئے-
حضرت موسی علیہ السلام نے وہاں اللہ کی بہت ہی عبادت کی- ایک دن حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے کہا- کہ ایے اللہ
میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں- اللہ نے کہا کہ آپ مجھے نہیں دیکھ سکو گے – حضرت موسی علیہ السلام نے بہت اصرار کیا – تو اللہ نےکہا کہ آپ اس پہاڑ پر نظر ڈالیں- اگر آپ کی نظر جمی رہےگی-تو آپ مجھے دیکھ لیں گے- موسی علیہ السلام نے پہاڑ کو دیکھا تو
وہ بہت زیادہ چمک رہا تھا-حضرت موسی علیہ السلام سے
اس طرف نہ دیکھا گیا اور بیہوش ہو گئے- پھر جب ان کو
ہوش آیا -توانہوں نے کہا- کہ اے اللہ ! واقعی میں آپ کو نہیں
دیکھ سکتا ہوں- پھر اللہ تعالی نے ان کو کتاب تورات دی اور
اور زندگی گزارنے کی تمام اچھی باتیں بتا دیں- حضرت
موسی علیہ السلام چالیس دن وہاں رہے – اور تورات لیکر واپس آ گیے –
٦بنی اسرائیل اور بچھڑے کی پوجا-
بنی اسرائیل کے پاس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم
ایک سونے کے بنے ہوئے بچھڑے کی پوجا کر رہی تھی- موسی علیہ السلام بہت غصہ آیا-
بھائی ہارون علیہ السلام سے پوچھا -کہ یہ کیا ہے تم نے ان
کو منع کیوں نہیں کیا- حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے
بھائی موسی علیہ السلام سے کہا- کہ اے میرے بھائی مجھے
نہ پکڑو- میں نے ان کو بہت منع کیا تھا- لیکن سامری جادوگر
نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا تھا- اور کہا تھا کہ تمہارا رب
نظر نہیں آتا ہے- اس لئےمیں تم کو عبادت کے لئے بچھڑا بنا دیتا ہوں –
بنی اسرائیل نے سوچا کہ حضرت موسی علیہ السلام
تیس دن کے لئے کوہ طور پر گے تھے –وہ واپس نہیں آئے تو شایدفوت ہوچکے ہیں
سامری جادوگر نے ان کو دھوکا دے کر ان کو ایک بچھڑا بنا
دیا- اور کہا کہ یہ تمہارا خدا ہے – اب تو اس کی عبادت کیا کرو-
حضرت موسی علیہ السلام نے وہ بچھڑا اٹھایا- اور اس کو توڑ کر دریا میں
پھینک دیا-جب غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا- تو موسی علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا- کہ اللہ نے مجھےیہ کتاب تورات
دی ہے-اور اس نے تمام حکم بتا دیے ہیں- کہ اللہ کی عبادت کیسے کرنی ہے – اور کون کون سے کام حرام ہیں – لیکن وہ نا شکرے لوگ کہنے لگے- کہ موسی ہمیں کیا پتا ہے یہ کتاب تمہیں اللہ نے دی ہے- یا تو خود لکھ کرلے آئے ہو-جب ہم خود اللہ کو اپنی آنکھوں سے
دیکھیں گے -پھر ہمیں یقین آئے گا- حضرت موسی اپنے قبیلوں
کے 70 افراد کو لے کر کوہ طور پر چلے گئے- وہاں پر اللہ
نے ان ستر لوگوں سے بات کی- تو وہ لوگ کہنے لگے یہ تو
صرف آواز ہے- ہمیں تو اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھنا ہے- اس پر اللہ تعالی بہت ناراض ہوگئے- اور وہ ستر کے ستر لوگ مر گئے-
موسی علیہ السلام پریشان ہو گۓ –
موسی علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی-کہ اے اللہ جب میں اپنے قبیلے
کے پاس واپس جاؤں گا- تو ان کو کیا جواب دوں گا- اے اللہ مجھ پر اوران لوگوں پر رحم کر- تو اللہ ان ستر لوگوں کو دوبارہ زندہ
کر دیا- اوروہ اپنے قبیلے کے پاس واپس آ گئے-
٧.بنی اسرئیل کی نافرمانیاں اور سزائیں
حضرت موسیٰ علیہ سلام کو الله نے شریعت دی. اور عبادت
کا طریقے بھی بتا دیۓ-ان کو روزہ رکھنے اور نماز
پڑھنے کا طریقہ بھی سکھایا گیا- لیکن بہت کم لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے.
حضرت موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل بار بار اللہ ک
فرمانی کرتی رہی-
اس لیے اللہ نے ان کو بہت سا ری سزائیں اور ان پر عذاب بھجھے –
ایک دفعہ الله نے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سنے ان پر جوؤں ،ٹیٹدیو ں اور مینڈکو ں کا عذاب بھیجا-
وہ لوگ مچھلی کا شکار کر
کے اپنی روزی کماتے تھے -الله تعا لّی نے ان کو حکم دیا کہ
وہ ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں- اور سب کام چھوڑ
کرصرف الله کی عبادت کیا کریں- الله نے ان کی آزمائش کی- کہ جب ہفتہ کا دن ہوتا تو بہت
ساری مچھلیاں اچھل اچھل کر باہر آتیں-لیکن باقی دنوں میں مچھلیاں پانی کےنیچے چلی جاتیں-اور کوئی مچھلی نہ پکڑی جاتی – ان لوگوں نے ایک ترکیب
سوچی- اور دریا سے پانی کا راستہ بنا کر چھوٹے چھوٹے گڑھے کھود لیے —
اس طرح ہفتہ کے دن مچھلیاں وہاں آ کر بند ہو جاتیں- اور اگلے دن وہ لوگ مچھلیاں
پکڑ لیتے-کچھ لوگ جوالله سے ڈرتے تھے- انھوں نے ان لوگوں کو روکا لیکن وہ لوگ نہ مانے-وہ کہتے کہ ہم ہفتہ کے دن تو مچھلی کا شکار نہیں کرتے- اسطرح انھوں نے الله کو دھوکہ دینے کی کوشش کی-اللہ نے ان تمام لوگوں کوجنہوں نے مچھلیاں پکڑی تھیں-اور ان کے ساتھی جنہوں نےان کو نہیں روکا تھا-
سب کو بندر بنا دیا-اور کچھ دنوں کے بعد وہ سب بندر بن کر مر گے-
ان کی نافرمانیوں میں ایک اور نا فرمانی یہ تھی- کہ جب اللہ تعالی نے اس قوم کو کہا-کہ آپ ایک گائے ذبح کرکے میری راہ میں قربان کریں-
تو ان لوگوں کادل اس گائے اور بچھڑے کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا – انہوں نے بہانے بنانا شروع کر دیے- اور کہا کہ ہمیں بتائیں وہ گائے
کیسی ہو، اس کا رنگ کیسا ہو ، اس کی عمر کتنی ہو اور اس طرح
کے بہت سارے سوال کیے – حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ نے
بتایا کہ وہ گائے سرخ رنگ کیا ا یک جوان اور خوبصورت سی،
بے داغ گائے ہونی چاہیے -اس طرح کی گائے دو یتیم
بچوں سے مل گئی-
ان لوگوں نے مجبوری سے وہ گایے خریدی اور ذبح کر دی-
ان دنوں ایک اور واقعہ ہوا – ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو دولت کے لالچ میں
قتل کرکے کسی کےگھر کے آگے پھینک دیا تھا- حضرت موسی علیہ اسلام نے
گائے ذبح کروائی- اور اس کا ایک ٹکڑا اس مرے ہوئے آدمی
کی لاش کے اوپر مارا- جس پر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ا سنے
بتادیا کہ مجھے کس نےقتل کیا ہے -اس طرح اللہ کے حکم سے اس قتل کا پول کھل گیا –
بچو! یہ بنی اسرائیل وہی ہیں جن کو آج ہم یہود کے نام سے جانتے ہیں-.یہ لوگ اللہ کے بڑ ے نافرمان تھے – اور اللہ کا شکر نہیں کرتے تھے –اس لیے الله نے ان سے اپنی سا ری نعمتیں بھی چھین لیں. اور یہ لوگ بہت سال صحرا میں بھٹکتے رہے-
عملی کام :-
اس کہانی کے آخر میں بچوں سے
١. حضرت موسی علیہ اسلام کی قوم اور فرعون کے متعلق سوال پوچھیں– ٢. قران پاک سے اس کہانی ک متعلق مختلفواقعیات کا ذکر کریں ٣. تخلیقی کم کروائیں
یہ کہانی میں نے اپنے بچوں کو کیسے پڑھائی اور اس کے لیے کون سے تخلیقی کام کیا – اس کے لئے میری اس ویب سائٹ پر جائیں
(Visited 553 times, 2 visits today)