فانٹو ایک ہاتھی!
فانٹو ایک ہاتھی تھا جو کے جنگل میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا، وہاں جنگل اس کے ا ور بھی بہت سے ہاتھی دوست تھے جن کے ساتھ وہ کھیلتا تھا
فانٹو ایک ہاتھی تھا جو کے جنگل میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا، وہاں جنگل اس کے ا ور بھی بہت سے ہاتھی دوست تھے جن کے ساتھ وہ کھیلتا تھا
لیکن ا
جنگل میں اس کا سب سے اچھا دوست پانی تھا. وہاں جنگل میں اس کے گھر کے قریب ایک تالاب تھا. جو ٹھنڈے میٹھے پانی سےبھرا ہوا تھا
وہ اس پانی کے ساتھ خوب کھیلتا. اس کو پانی میں تیرنا , چھلانگیں لگانا بہت اچھا لگتا تھا
وہ پانی اپنی سونڈ میں بھرتا اور کبھی اپنے اوپر چھڑکتا اور کبھی اپنے دوستوں پر
اس کے دوست بھی اپنی اپنی سونڈ میں پانی بھر کر ایک دوسرے پر پھینکتے رہتے
اس طرح وہ بہت سارا پانی ضائع کر دیتے.لیکن انہوں نے کھبی اس بات پر دھیان نا دیا کہ وہ کتنا پانی ضائع کر رہے ھیں
کافی عرصہ سے جنگل میں بارش بھی نہیں ہوئی تھی.گرمی بہت شدید تھی.اب تو وہ اور بھی زیادہ وقت پانی میں گزارنے لگے تھے
تالاب کا پانی آہستہ آہستہ کم ہونے لگا. اس کے ماں باپ اس کو سمجھاتے کہ اپنے سب سےاچھے دوست کو یوں ضائع نہیں کرنا چاہئے
لیکن وہ پانی سے کھیلنے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے. آخر ایک دن ایسا آیا کہ تالاب بالکل سوکھ گیا. اس کا پانی بالکل ختم ہو گیا
سب والدین ہاتھی اس صورت حال سے بہت پریشان تھے. فانٹو بھی اپنے سب سے پیارے دوست کے بغیر خوش نہیں تھا.لیکن اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پانی کے بغیر زندگی کتنی مشکل ہونے والی ہے
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ دوسرے کھیل کھیلنے میں مصروف ہو گیا.وہ سب اب بھی ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور شور مچا رہے تھے. دوپہر بہت گرم ہو گئی وہ کھیل کھیل کر تھک چکے تھے. اس کو پیاس بھی بہت لگی ہوئی تھی
وہ پیٹ بھر کر پانی پینا چاہتا تھا. لیکن وہاں تو ایک گھونٹ بھی پینے کےلئے نہیں تھا
اس نے اداس ہو کر سر جھٹکا اور کیلے کھانے چلا گیا
اس نے کیلے کھاتے کھاتے سرگوشی کی کہ
‘کیلے میری پیاس تو نہیں بجھا سکتے’
اب تو پانی کے بغیر اس سے کھیلا بھی نہیں جا رہا تھا
شام ہو گئی تھی سب کا پیاس سے برا حال تھا.وہ سب صرف پانی کے بارےمیں ہی سوچ رہے تھے. والدین ہاتھی بچوں کی پیاس اور پریشانی محسوس کر رہے تھے. لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے. سوا اس کے کہ اللہ سے دعا کریں. وہ سب اللہ سے دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ اپنی رحمت سے بارش برسا دے.اور ہم پر رحم فرما. وہ سب بار بار آسمان کو بھی امید سے دیکھ رہے تھے کہ شاید ابھی کوئی بادل آسمان پر آئے گا اور بہت سارا پانی برسا جائے گا
رات ہو گئی تو فانٹو وہیں گھاس پر لیٹ گیا
رات کو اس کو سب چیزیں اور بھی زیادہ بے رنگ لگ رہی تھیں. اس نے ایک دفعہ پھر اپنی ماں ہاتھی سے پانی مانگا. ماں بے بس تھی. اس نے فانٹو کو کہا کہ وہ بھی اللہ سے دعا کرے. پھر اللہ بہت سارا پانی برسائے گا. فانٹو دعا کرنے لگا لیکن پیاس سے اس کے ہونٹ بھی نہیں ہل رہے تھے. پھر اس نے چپکے سے دل ہی دل میں دعا کرنی شروع کر دی. دعا کرتے کرتے وہ سو گیا.
ابھی وہ تھوری دیر ہی سویا تھا کہ اس کو لگا اس پر پانی کے چھینٹے پڑے ہیں. اس نے سوچا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے
پھر اس نے ایک آواز سنی. کوئی کہہ رہا تھا کہ بارش آ گئی اس نے آنکھیں کھول دیں. اسی وقت اس کی ماں اس کے پاس جلدی سے آئی اور کہنے لگی
فانٹو ! میرے بیٹے , دیکھو , بارش ہو رہی ہے. اب تم بہت سارا پی سکو گے. فانٹو جلدی سے اٹھ گیا. بارش بہت تیز ی سے اس کے چہرے اور سارے جسم پر برس رہی تھی. آہستہ آہستہ پانی نرمی اور بہت پیار سے اس کے جسم پر بہنے لگا. ایسا لگ رہا تھا کہ پانی بھی اس کے بغیر اداس ہو گیا تھا.
فانٹو نے دل ہی دل میں خود سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی اپنے پیارے دوست کو ضائع نہیں کرے
لکھاری :- ادیبہ انور
اردو کہانی چینل
انگلش کرافٹ چیننل
Print this story here.
لکھاری :- ادیبہ انور
اردو کہانی چینل
انگلش کرافٹ چیننل
Print this story here.
(Visited 164 times, 1 visits today)